★ســبــق آمـــوز کــہـــانــیـــاں★
آنکھوں کی طلب ۔۔۔۔۔
کوہِ طور پر تجلیِ الہٰیہ کی زیارت کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چہرہ مبارک پر ایسی قوی چمک رہتی تھی کہ چہرے پر نقاب کے باوجود جو بھی آپ کی طرف آنکھ بھر کر دیکھتا تو اُس کی آنکھوں کی بینائی ختم ہو جاتی۔ آپ علیہ السلام نے حق تعالیٰ سے عرض کیا کہ "مجھے ایسا نقاب عطا فرمائیے جو اِس قوی نُور کا ستر بن جائے اور مخلوق کی آنکھوں کو نقصان نہ پہنچے۔" حکم ہوا کہ "اپنے اُس کمبل کا نقاب بنا لیجئےجو کوہِ طُور پر آپ (علیہ السلام) کے جسم پر تھا۔ جس نے طُور کی تجلی کا تحمل کیا ہُوا ہے۔ اے موسیٰ.! اُس کمبل کے علاوہ اگر کوہ قاف بھی آپ کے چہرے کی تجلی بند کرنے کو آ جائے تو وہ بھی مثلِ کوہِ طُور پھٹ جائے گا۔۔۔"
_
الغرض موسیٰ علیہ السلام نے بغیر نقاب کے خلائق کو اپنا چہرہ دیکھنے سے منع فرما دیا۔ آپ علیہ السلام کی اہلیہ حضرت صفورا آپ کے حُسنِ نبوت پر عاشق تھیں۔ اب جب نقاب نظروں کے درمیان حائل ہو گیا تو آپ بےچین ہو گئیں۔ جب صبر کے مقام پر عشق نے آگ رکھ دی تو آپ نے اِسی شوق اور بےتابی سے پہلے ایک آنکھ سے موسیٰ علیہ السلام کے چہرے کے نُور کو دیکھا اور اِس سے اُن کی ایک آنکھ کی بینائی سلب ہو گئی۔ اِس کے بعد بھی آپ کو صبر نہ آیا, دل اور آنکھوں کی طلب اور بڑھ گئی۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چہرے پر نظارہِ تجلیاتِ طُور دیکھنے کے لئے دوسری آنکھ بھی کھول دی اور اُس کی بھی بینائی سلب ہو گئی۔۔۔۔
_
عاشقہِ صادقہ حضرت صفورا سے ایک عورت نے پوچھا "کیا تمہیں اپنی آنکھوں کے بےنُور ہو جانے پر کچھ حسرت و غم ہُوا ہے۔؟" تو آپ نے فرمایا "مجھے تو یہ حسرت ہے کہ ایسی سو ہزار آنکھیں اور بھی عطا ہو جائیں تو میں اُن سب کو محبوب کے چہرہِ تاباں کو دیکھنے میں قربان کر دیتی۔ میری آنکھوں کا نُور تو چلا گیا مگر آنکھوں کے حلقے کے ویرانے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چہرے کا خاص نُور سما گیا ہے ۔۔۔"
حق تعالیٰ کو حضرت صفورا کی یہ سچی چاہت, تڑپ, یہ کلام, یہ مقامِ عشق اور دل و نظر کی طلب پسند آ گئی۔ خزانہِ غیب سے پھر اُن کی آنکھوں کو ایسی بینائی کا نُور اور تحمل بخش دیا گیا جس سے وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چہرہِ تاباں کو دیکھا کرتیں تھیں ۔۔۔۔
_
👈 درسِ حیات : "طلب صادق ہو تو خُدا کی مدد شاملِ حال ہو جاتی ہے۔۔"
🌹🍃🌹🍂🌹🍃🌹🍂🌹🍃🌹🍂🌹🍃🌹🍂🌹🍂🌹🍃🌹🍂
______________